منگل، 24 نومبر، 2015

غزل - انوکھا غم جو تڑپانے لگا ہے

غزل

انوکھا غم جو تڑپانے لگا ہے
مزا جینے کا اب آنے لگا ہے

خرد کے پیچ سلجهانے جو نکلا
دلوں کے تار الجھانے لگا ہے

جہاں تاریکیوں میں "جل" رہا ہے
یہ "ٹھنڈی آگ" بهڑکانے لگا ہے

کٹھن ہے راہ، پر تم کیسے سمجھو
یہ دیوانہ، کہاں جانے لگا ہے

تمنا ہے، لگن ہے، جستجو ہے
ارادہ، منزلیں پانے لگا ہے

کوئی آواز دل سے آ رہی ہے
"فہدؔ یکسر بدل جانے لگا ہے"

(فہدؔ بن خالد)

نوٹ: تیسرے شعر میں موجود "ٹھنڈی آگ" کی اصطلاح نعیم صدیقی صاحب کے افسانہ بعنوان "ٹھنڈی آگ" سے لی گئی ہے۔ مختصراً اس سے مراد وہ جذبہ ہے جو انسان کو مسلسل اپنے مقصد کے حصول کے لیے کچھ کرتے رہنے پر اکسائے اور اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑے نہ کہ وہ آگ جو کچھ دیر جلے اور پھر بجھ جائے۔

پیر، 19 اکتوبر، 2015

غزل - غم کے دریا جھیل جانا آگیا

غزل

غم کے دریا جھیل جانا آگیا
زخم کها کر مسکرانا آگیا

تجھ کو بھی جب دل دکھانا آگیا
ہم کو بھی سب بهول جانا آگیا

اپنے اندر کی سنی آواز جب
لب پہ الفت کا ترانہ آگیا

راہ تکتے شب سحر ہو جائے گی
آج لیکن دل لگانا آگیا

پڑھ کے یارو کھپ گئے تهے رات دن
پهر پڑھائی کا زمانہ آگیا

کھل گئی آخر کو اب اپنی کتاب
یاد سب قصہ پرانا آگیا

سب سے بڑھ کر یہ عنایت ہے فہدؔ
راہِ حق میں سر کٹانا آگیا

(فہدؔ بن خالد)

ہفتہ، 6 جون، 2015

اثر - افسانہ

ہوا قدرے خنک تھی۔ میں نے کینال روڈ پر موٹر سائیکل ڈالی تو وہ چند سیکنڈ میں ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ میری طبیعت میں ایسی تو کوئی جلد بازی نہیں تھی مگر اس وقت محسوس ہو رہا تھا کہ میرے اپنے ہاتھ میرے قابو میں نہیں رہے۔ رات کے تین بج رہے تھے اور ظاہر ہے کہ سڑک بالکل سنسان تھی۔ سڑک کے اطراف میں لگی پیلی روشنیاں درختوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی بڑا عجیب اور وحشت ناک منظر پیش کر رہی تھیں۔ کانوں میں انجن کے شور کے سوا کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ میٹر کی سوئی آخری ہندسوں کو چھونے لگی تو میں نے چونک کر رقتار کچھ کم کر دی۔

بدھ، 18 فروری، 2015

اے اہلِ نیل... نظم

(اخوان المسلمون کے پر عزم بھائیوں کے نام)


صعوبتوں کو منزلوں کی اک دلیل سمجھیے
جو آئے سنگ راہ میں تو سنگِ میل سمجھیے

لہو کو چھوڑیے کہ اس کا کام ہے، رواں رہے
رگیں ہوں یا زمین ہو، بس اک سبیل سمجھیے

اندھیری شب کے بعد ہی سحر کا نور آئے گا
یہ مختصر سا مرحلہ ہے، مت طویل سمجھیے

خدا کی نصرتوں، بشارتوں کا بس یقیں رہے
کبھی نہ دولتِ یقین کو قلیل سمجھیے

خدا کا یہ اصول ہے، وہی مراد پائے گا
جو اپنی جاں لڑائے گا اے اہلِ نیل، سمجھیے

(فہدؔ بن خالد)

جمعہ، 2 جنوری، 2015

غزل - نہ پوچھو حالِ دِل دِل سے، کہ دل سچ سچ بتا دے گا

غزل

نہ پوچھو حالِ دِل دِل سے، کہ دِل سچ سچ بَتا دے گا
دکھوں کا ذکر کر کے، آنسوؤں سے مسکرا دے گا

نہ تو عالِم، نہ میں عابد، تجھے مجھ پر فضیلت کیوں؟
تجھے منزل گوارا ہے، مجھے رستہ مزا دے گا

میں صبح و شام روتا ہوں، نہ سمجھو مجھ کو دیوانہ
یہ ٹھنڈی آگ ہے، اک دن لہو میرا بجھا دے گا

نہیں کوئی حقیقت، جاہ و حشمت کے نمونوں کی
فقیری کا یہ پتھر، پادشاہی کو ہِلا دے گا

ہماری جان جاتی ہے تو جائے، تو خفا کیوں ہے؟
ازل سے جو سلگتا ہو، اسے اب کیا وفا دے گا

مِرے مالک! تجھے معلوم ہے، تیرا ہی بندہ ہوں
تِرا دیدار، دل کی ہر تمنّا کو مٹا دے گا

فہدؔ مردِ قلندر ہے، جبھی خاموش رہتا ہے
اسے تنہا ہی رہنے دو! زمانہ سب سکھا دے گا

(فہدؔ بن خالد)