بدھ، 1 مئی، 2019

محمد عربی (ﷺ) کی عا‌‌ئلی زندگی - تحریر: جنید الرحمٰن

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی جنھیں ازروےٗ قرآن اللہ کریم نے جملہ مسلمانوں عربی و عجمی، کالے و گورے ، حاکم و محکوم،چھوٹے بڑے،مرد و عورت کے لئے آفتاب ہدایت، سراپا راہنمائ اور ہمہ جہتی کامل نمونہ بنا کر بھیجا تھا،کیسے ممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانی زندگی کے ایک جبلی و فطری تقاضے اور اہم پہلو ازدواج واہل و عیال کے سلسلے میں لوگوں کیلۓ مثالی نمونہ قائم نہ فرماتے۔(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عائلی زندگی ۔حافظ سعد اللہ،ص۱۳)

پس قرآن نے بجا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی زندگی تمام انسانوں کیلۓ بہترین عملی نمونہ ہے۔چاہے وہ  بھرےمجمع میں سیدۃ صفیہ ؓ  کو راحلہ پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار کرانا تھا، یا پھر دوران اعتکاف مومنوں کی ماں عائشہؓ سے کنگھی کروا لینا،صفیہؓ کو مسجد کے دروازے تک چھوڑنے تک آنا ،بیویوں کو اپنی ذات پر فوقیت دینا،ان سے ہنسی مذاق کرنا،ان کی ناز برداریاں اٹھانا،  یا خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی ان کی سہیلیوں کے گھر تحائف بجھوانا،ان کی حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلۓ دی جانے والی قربانیوں کا برملا اعتراف کرنا ،ہڈی کو اس طرف سے چوسنا جس طرف سے عائشہؓ نے چوسا ہو، یا پھر عائشہؓ کی گود میں ہی وصال کرنا  ، جو سلسلہ ماں خدیجہؓ سے شروع ہوا اور ماں عائشہؓ کی گود میں وصال پر اختتام پذ یر ہوا اس میں ایسی کو ئی مثال نہیں ملتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بیویوں سے کوئی ناروا سلوک روا رکھا، انہیں وہ درجہ دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پہلے دنیا میں عورت یا اگر مو ضوع کی مناسبت سے کہیں تو بطور بیوی، نہیں دیا جاتا تھا۔


عائلی اور منزلی زندگی انسان کے وجود کے لئے ایک ایسی ضرورت ہے جس کا انکار نا ممکن ہے۔عائلی اور منزلی زندگی اسی وقت وجود میں آ گئی جب حضرت آدم علیہ السلام کی تنہائی دور کرنے کے لیے صنفِ نازک کو وجود بخشا گیا۔ حضرت حوا علیہا السلام کی پیدائش سے زوج مکمل ہو گیا اور اس کائنات میں موجود سب انسانی رشتوں کا آغاز ہوا۔ کائنات کا یہ پہلا جوڑا میاں،بیوی،والدین اور معصوم بچوں جیسے خوبصورت رشتوں کا آغاز بنا۔ امریکی نو مسلم خاتون ام عبدالرحمن لکھتی ہیں ’’اس کائنات کے مختلف اجزاء و عناصر میں تزویج اور توالد و تناسل کا عمل ایک فطری اور حیاتیاتی اسلوب پر ازل سے جاری و ساری ہے اس سلسلے میں پرندوں،  مویشیوں اور مختلف جانوروں کے باہمی تعلقات کے علاوہ مختلف نباتات اور فصلوں میں بھی تزویج کا حیاتیاتی عمل دکھائی دیتا ہے۔ monogamy to polygamy   (p:17)  From
 جلال الدین عمری لکھتے ہیں: ”انسان کے سفر کا آغاز عورت اور مرد کے اتحاد سے ہوا۔ اسی سے اس کی نسل بھی پھیلی اور علم و فن، صنعت و حرفت اور تہذیب و تمدن میں بھی ارتقاء ہوا۔ عورت اور مرد کے اتحاد کے علاوہ انسانوں کے درمیان جتنے رشتے اور تعلقات ہیں وہ یا تو اسی اتحاد کا نتیجہ ہیں یا خارجی اسباب و حالات نے ان کو پیدا کیا اگر یہ اسباب وحالات مفقود ہوں تو یہ تعلقات بھی وجود میں نہیں آ سکتے۔ اس کے برعکس عورت اور مرد کے اتحاد کی نوعیت یہ نہیں بلکہ ان کا تعلق اس فطری جذب و کشش کا ظہور ہے جو ان کو جڑ ے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ (عورت اسلامی معاشرہ میں، ص    ۱۶)

"The family performs various valuable functions for its members. Perhaps most important of all, it provides for emotional and psychological security, particularly through the warmth, love and the companionship that living together generates between spouses and in turn between them and their children.
Encyclopedia Britannica, 4/376

اب اگر موضوع پر واپس آئیں تو کائنات کے سب سے آئیڈیل گھرانے کے باسی بھی انسان تھے۔جذبات اور احساسات ان کی زندگیوں کا اہم جزو تھے۔کاشانہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خوشی کے لمحات سے نوازا جاتا تو بسا اوقات غمی بھی اپنا ڈیرا ڈال دیتی تھی۔وہاں نومولود کی قلقاریاں بھی چہکتی تھی تو شکر رنجیاں اور غلط فہمیاں بھی پیدا ہوتی تھیں۔مختلف قبائل،یا سوکناپے کی فطری غیرت کی وجہ سے تلخ کلامی بھی ہو جاتی تھی۔گھریلو اخراجات بھی تھے تو آل اولاد سے وابستہ ذمہ داریاں بھی تھیں۔غرض کہ انسان اپنی عائلہ اور اس سے ہونے والی اولاد کے معاملے میں جن مسائل سے درپیش ہوتا ہے وہ سب اسوۃ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا جزو تھیں۔لیکن بارِنبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ،بلکہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  امام المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،کا وہ بوجھ جو آُپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے کاندھوں پر تھا اس کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ لازم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  عائلی و ازدواجی زندگی کی وہ مثال قائم کریں جو رہتی دنیا تک مسلمانوں بلکہ تمام ابنِ آدم کیلۓ کافی ھو۔

 وعن أم المؤمنين عائشة -رضي الله تعالى عنها-
 قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي 
 أخرجه الترمذي.

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خانگی زندگی پر  اعتراضات
جب میرے آقاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی پاکیزہ،بے مثال،حسنِ معاشرت سے معمور زندگی پر کوئی ٹھوس اعتراضات مستشرقین عائد نہ کر سکے تو ان کا موئے قلم تعدادِ ازواج کی جانب مڑ گیا۔ کبھی ماں عائشہؓ کی کم عمری پر اعتراضات کرتے تو کبھی حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے کثرتِ نکاح پر پر نکتہ چینی کر کے چاند پر تھوکنے کی کوشش کرتے۔   

معروف مفکر اسلام شیخ علی طنطاوی نے اس حوالے سے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے۔ فرماتے ہیں دراصل ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو بھی اپنے مشاہیر اہل سیف پر قیاس کرنے کی کوشش کی ہے۔مثال کے طور پر ان کا ایک بڑا نپولین ہے جس نے ایک پوری قوم کو ان کی سربرآوردہ لوگوں کے ذریعے سے اس بات پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ دلال بن کر اس پولش لڑکی (میری لوئس) سے ملا دیں جس سے وہ محبت کرتا تھا۔  (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عائلی زندگی ۔حافظ سعد اللہ،ص۵۱)

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پیغمبر بھی انسان ہوتا ہے۔اگر وہ انسانوں کی جنس سےمبعوث نہ ہوتا تو لوگ اس سے رہنمائی کیسے حاصل کرتے؟ٓعام انسانوں کے ساتھ انسانیت اور بشریت میں مماثلت کے سوا وہ کسی چیز میں عام لوگوں کے مماثال نہیں ہوتا۔عام انسان اور پیغمبر میں جسمانی،ظاہری،باطنی،روحانی،اور اخلاقی ہر اعتبار سے بڑا فرق ہوتا ہے۔اللہ کریم نے کبھی کسی معمولی انسان کو نبوت و رسالت کے عظیم مرتبے پر فائز نہیں فرمایا۔اس لیے فرمایا گیا

بشر لا کا البشر ۔لکن کا لیاقوت بین البحر
(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  انسان ہیں مگر عام انسانوں کی مانند نہیں بلکہ وہ پتھروں کے درمیان یاقوت کے مانند ہیں)
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عائلی زندگی ۔حافظ سعد اللہ،ص۵۱)

ان کے ان اعتراضات کا مختصرا جواب یہ ہے کہ
۱۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ان نکاحوں کا مقصد عداوتوں کا خاتمہ تھا جو مختلف قبائل اسلام کے خلاف کر سکتے تھے پر چونکہ داماد کے خلاف ہتھیار اٹھانا برا سمجھا جاتا تھا سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس حکمتِ عملی سے کئی قبائل جیسا کہ سیدۃ صفیہؓ ، سیدۃ میمونہؓ ، سیدۃ جویرہؓ کے معاملے میں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس حکمتِ عملی سے فائدہ اٹھا یا ۔
۲ ّ بیوہ خواتین کی دلجوئی اور سہارے کی خاطر  جیسا کہ سیدۃ سودہؓ ، سیدۃ زینبؓ، سیدۃ ام سلمہؓ سے نکا ح میں حکمت ںظر آتی ہے۔
 ۳ ۔ تعلیمِ نسواں، چونکہ عورتوں کی تعلیم و اصلاح ایک عورت سے بہتر کوئی کر نہیں سکتی  چنا نچہ ضروری تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی حامل خواتین سے نکاح  کر کے ان کے ذریعے     مسلم خواتین کی  راہنمائی فرمائیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کا شانہ کا نظم ونسق
جب مرد اور نکاح کے بندھن میں بندھتے ہیں تو مرد صرف عورت کو اپنی اولاد کو جننے والی اور ان کی دیکھ بھال کرنے والی نہیں بناتا بلکہ اس کا نان و نفقہ، رھائش، پہناوا سب اس مرد کی ذمہ داری ہے جو اسے بخوشی نبھانی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’وَبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ‘‘ (النساء ۴: ۳۴)
اور اس سبب سے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
أنْ تُطْعِمُھَا اِذَا طَعِمْت، وَتَکْسُوْھَا اِذَا اکْتَسَبْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبّحْ وَلَا تَھْجُرُ اِلَّافِی الْبَیْتِ  بخاری، کتاب النفقات، باب اذآالم ینفق الرجل (ح ۵۳۲۴))

 جب تم کھانا کھاؤ تو ان کو بھی کھلاؤ اور جب خود لباس پہنو تو ان کو بھی پہناؤ اور چہرے پر نہ مارا کرو اور انہیں برا بھلا بھی نہ کہا کرو۔ اور ان کو گھر کے سوا کسی جگہ چھوڑ کر نہ جاؤ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اپنی ازواجِ مطہرات کے رہائش نان نفقہ کے بطور سربراہِ خانہ ذمہ دار تھے۔

اگرایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کی الگ الگ رہائش کا بندوبست کرنا بھی خاوند پر فرض ہے۔ الا یہ کہ ایک سے زائد بیویواں ایک ہی گھر میں رہنے پر رضامند ہوں مگر بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں الگ رہائش مہیا کرنا ہی مبنی بر انصاف ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو الگ گھر مہیا کیا تھا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے۔ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ (الاحزاب ۳۳: ۳۳) اپنے گھروں میں ٹک کر رہو۔ اسی طرح آگے ارشاد ہوا وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہ وَالْحِکْمَۃِ (ایضاً، ۳۴) ایک اور مقام پر ارشاد ہو۔ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیّ إلَّا أنْ یُّؤذَنَ لَکُمْ (الاحزاب ۳۳: ۵۲) ان تینوں آیات میں ’’بیوت‘‘ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ ازواج کے گھر الگ الگ تھے۔
(عصری عائلی مسائل اور اسلامی تعلیمات،ڈاکٹر شاہدہ پروین،ص۳۰۸)

ام المومنینؓ کا نان و نفقہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’افضل صدقہ وہ ہے جو (اہل و عیال کو) کو بے نیاز چھوڑ دے (یعنی ان کی ضروریات پوری کرنے کے بعد کیا جائے تاکہ وہ کسی کے محتاج نہ رہیں۔ اور بلند ہاتھ (دینے والا) نچلے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے اور آغاز اس سے کرو جس کے تم کفیل اور ذمے دار ہو۔ عورت کہتی ہے مجھے کھلا، یا مجھے طلاق دے، غلام کہتا ہے مجھے کھلا اور اور مجھ سے کام لے۔ اور بیٹا کہتا ہے ، مجھے کھلا، مجھے کس کے سپرد کر رہا ہے؟ لوگوں نے پوچھا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیا یہ (سب باتیں) تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں؟ انہوں نے کہا ، نہیں یہ ابوہریرہ کی زنبیل سے ہے۔

بے مثال شوہر اور ازواج سے حسن معاشرت

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي

چنانچہ اسلام نے بزرگی اور بھلائی کا معیار یہ نہیں رکھا کہ وہ شخص کتنا عالم و فاضل ھے یا متقی پرہیزگار ہے بلکہ اس کا اپنے عیال کے ساتھ رویہ و لطف و محبت کیا ہے؟

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دے لیا کرتی تھیں اور بعض تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سے کچھ وقت تک ناراض بھی رہتی تھیں (بخاری، کتاب المظالم، باب الفرقۃ والعلیہ۔۔۔ (ح ۲۴۶۸))   ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی۔ یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کہ ثالث بنا لیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ’’عائشہ! پہلے تم اپنا بیان دو گی یا پہلے میں بات کا آغاز کروں؟‘‘ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بات کریں لیکن سچ سچ کہنا‘‘ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو تھپڑ رسید کر کے منہ سے خون نکال دیا اور فرمایا: ’’اے اپنی جان کی دشمن! کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوٹ بول سکتے ہیں؟‘ ‘ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ لیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیٹھ کے پیچھے چھپ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ابو بکر رضی اللہ عنہ ہم نے آپ کو فیصلہ کرنے کے لیے بلایا تھا نہ کہ مار پیٹ کے لیے‘‘ (تاریخِ بغداد ۱۱/۲۴۰ (بحوالہ تحفۃ العروس ص ۲۵۱))
 ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک بار ناراض ہو گئیں تو فرمانے لگیں ’’أنت الذی تزعم انک نبی ‘‘؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کو سن کر تحمل اور شفقت و مہربانی سے کام لیتے ہوئے مسکرانے لگے (مجمع الزوائد ۴/۳۲۲)

ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گیارہ عورتوں کا قصہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنایا جس میں ہر عورت نے اپنے شوہر کا حال بیان کیا۔ ان میں سب سے زیادہ خوشی کا اظہار ابوزرع کی بیوی نے کیا کیونکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہر پہلو سے بہت احسن معاملہ کرتا تھا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہارے لیے ابو زرع کی مانند ہوں‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب حسن المعاشرۃ مع الأھل (ح ۵۱۸۹)،)

ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حبشیوں کا کھیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو دکھایا اور جب تک آپ رضی اللہ عنہا سیر نہیں ہو گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے رہے۔ (بخاری ایضاً (ح ۵۱۹۰))

اب اگر ذ کر کریں سیدہ خدیجہ ؓ کا تو شاید کوئی مبالغہ نہیں کہ  وفا داری ، خلوص، دانائی، ہمدردردی کی جو مثال آپؓ نے قائم کی وہ شاید کسی نبی یا رہنما کو نہ ملی۔ اور اس کا برملا اعتراف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی مواقع پر کیا۔

گو کہ قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس امر کی اجازت دے رکھی تھی کہ

تُرْجِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ ( الاحزاب ۔۵۱)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے جس کو چا ہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چا ہیں اپنے  پاس رکھیں۔

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی سب ازواج کی باری کا خا ص خیال رکھتے۔ یہاں تک کہ آخری ایام میں جب دل چاہا کہ سیدہ عائشہؓ کے سا تھ قیام کریں تو یہ عمل بھی دوسری ازواج کی رضامندی کے بعد کیا۔ ازواج  مطہرات کی فکر کا یہ عالم تھا کہ عائشہؓ سے فرماتے تھے کہ   مجھے اپنی وفات کے بعد تمہارے معاملے کی فکر ہے۔

شفیق باپ
سیرت نگاروں اور مورخین اور علمائے انساب کی صراحت کے مطابق نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  خود ماشااللہ تین صاحبزادوں سیدنا قاسم، سید عبداللہ اور سیدنا ابراہیم رضی اللہ تعالی عنھم اور چار صاحبزادیوں سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھنّ کے سگے باپ تھے جن میں صاحبزادہ ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا ساری اولاد اور بیٹے بیٹیاں اول الاسلام ، محسنہ اسلام ام المومنین سیدہ خدیجہؓ کے بطن مبارک سے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے تینوں صاحبزادے تینوں لعل تینوں جگر کے ٹکڑے تو بقضائے الٰہی بچپن میں ہی راہی جنت ہوگئے لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی چاروں صاحبزادیاں جوان ہوئیں اسلام لائیں اور ان کی شادیاں ہوئیں۔ نبی کرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ایک مہربان و شفیق باپ ہونے کی حیثیت سے امت کے لیےاولاد کے معاملے میں مثالی نمونہ چھوڑا ہے۔ اولاد کے ساتھ محبت و پیار، قلبی لگائو، ذہنی اور جسمانی میلان اور ایثا رو ہمدردی کے جذبات قدرت الٰہی نے امرتکوینی ، مصلحتوں اور پنہاں اسرارورموزکے تحت انسان کی جبلت اور فطرت میں رکھ دئیے ہیں۔ تاہم یہ بات مسلم ہے کہ بچوں کے ساتھ پیار اور محبت و شفقت تعلیمی ، تربیتی،اور معاشرتی فوائد اس ذات والا کی شان دوربین نگاہوں اور نور نبوت سے کیسے اوجھل رہ سکتے تھے جسے اللہ نے ہادی عالم معلم انسانیت اور ساری دنیا کے لیے ایک بہتیرن نمونہ اسوہ حسنہ بنا کر مبعوث فرمایاتھا۔( نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی عائلی زندگی ۔حافظ سعد اللہ،ص۲۹۱)

حضرت ابو ہریرہ ؓ کا آنکھوں دیکھا واقعہ منقول ہے کہ ایک موقع پر رسول مقبول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے نواسہ حضرت حسن ؓ( ایک روایت میں حسین ؓ ) کا بوسہ لیا تو اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس ایک بدوی اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھا ہوا تھا یہ دیکھ کر اقرع مذکو رنے کہا میرے دس بیٹے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اس کی طرف دیکھا پھر فرمایا من لا یرحم لا یرحم (صحیح بخاری جلد نمبر ۲ صفحہ ۸۷۷۔)حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے گھریلو خادم حضرت انس بن مالک ؓ اپنے بال و بچوں کے ساتھ اپنی انتہائی محبت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:-

مارایت احدا کان ارحم بالعیال من رسول الللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح مسلم جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۵۴)
میں نے کوئی آدمی  ایسا نہیں دیکھا جو رسول مقبول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ اپنے بال بچوں پر رحم وشفقت والا ہو۔

اولاد سے محبت کا یہ عالم کہ جب زینب ؓ نے  سیدہ خدیجہؓ کا ہار بطور فدیہ بجھوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جانا یا  زینب ؓ ، رقیہؓ کے صاحبزادوں کی وفات پر اس مضبوط دل و گردہ والے نبی کا آنسو بہا نا یا امامہ بنت ابی العاصؓ کو کندھوں پر اٹھا کر نماز ادا کرنا۔

خا دموں سے حسنِ سلوک
ذاتی و گھریلو ملازموں کو گھر کا فرد سمجھنا تو درکنار ان کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل عرب و عجم میں ان سے انسانیت سوز سلوک کیا جا تا تھا۔ مگر اسلام نے ان کو گھر کا فرد تک قرار دیا اور اہل خانہ جیسی شفقت و محبت سے نوازا۔ یہاں تک کہ آُپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری الفاظ یہی تھے

الصلوۃ،الصلوۃ وما ملکت ایمانکم
نماز، نماز اور تمہارے دائیں ہاتھ کی ملکیت (غلام)۔

اپنے غلام یا باندی کو یا عبدی یا یا امتی کی بجائے متبادل فتای اور فتاتی کہہ کرپکارا جانے کی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدایت کی۔ اسی طرح غلام اورکنیز بھی اپنے آقا کو ربی یا ربتی کی جگہ سید یا سیدی کہہ کر پکارنے کا کہا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو تم میں سے کسی کا خادم کھانا تیار کرکے اس کے پاس آئے درحالانکہ اس خادم نے کھانا تیار کرنے کی گرمی سہی اور اس نے آگ کا دھواں برداشت کیا ہے تو اس مالک کو چاہئے کہ اس خادم کو اپنے پاس بٹھا کر کھلائے اور اگر کھانا کم ہو تو بھی اس کے ہاتھ میں ایک دو لقمے ضروررکھدے۔ (صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۵۲)۔ زید بن حارثہ ؓ کا اپنے وارثوں پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ترجیح دینا یا دس سال تک انسؓ کو خادم ہونے کے با وجود  نہ جھڑکنا بھی اسی رحم و کرم کی مثال ہے۔

غرض یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائلی زندگی کا قصر ایسا خوبصورت تعمیر کیا کہ حیاتِ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ یہ محل صرف کھلا اور ہوا دار ہی نہیں بلکہ خوشبودار، معطر اور پرفضا بھی ہے۔ آج اگر انسان ان عائلی قوانین پر پورے طریقے سے عمل پیرا ہو تو گھر خوبصورتی کا ایسا مرقع بن سکتا ہے جس میں انسان اور اس کی نسلِ نو مطمئن اور پر سکون زندگی گزار سکتی ہے۔ بقول شاعر

پھر سے بجھ جا ئیں گی شمعیں جو ہوا تیز چلی

لا کے رکھو سرِ محفل کوئی خور شید اب کے


1 تبصرہ: