ہفتہ، 6 جون، 2015

اثر - افسانہ

ہوا قدرے خنک تھی۔ میں نے کینال روڈ پر موٹر سائیکل ڈالی تو وہ چند سیکنڈ میں ہوا سے باتیں کرنے لگی۔ میری طبیعت میں ایسی تو کوئی جلد بازی نہیں تھی مگر اس وقت محسوس ہو رہا تھا کہ میرے اپنے ہاتھ میرے قابو میں نہیں رہے۔ رات کے تین بج رہے تھے اور ظاہر ہے کہ سڑک بالکل سنسان تھی۔ سڑک کے اطراف میں لگی پیلی روشنیاں درختوں سے چھن چھن کر آتی ہوئی بڑا عجیب اور وحشت ناک منظر پیش کر رہی تھیں۔ کانوں میں انجن کے شور کے سوا کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ میٹر کی سوئی آخری ہندسوں کو چھونے لگی تو میں نے چونک کر رقتار کچھ کم کر دی۔


دراصل صورتحال ہی کچھ ایسی تھی۔ دو روز قبل میرا سب سے قریبی، سب سے عزیز دوست ایک حادثے میں شدید زخمی ہو کر زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ اس وقت وہ قومہ کی حالت میں تھا۔ حادثے کا شکار وہ ہوا تو گویا افتاد مجھ پر آ پڑی۔

ابرار سے میری دوستی چھ برس قبل سکول کے زمانہ میں ہوئی۔ ابتدا میں اس دوستی کی غرض تو شائد یہی تھی کہ وہ کلاس کا محنتی اور ذہین ترین لڑکا تھا۔ میں کند ذہن تو نہیں تھا البتہ محنت سے جی چراتا تھا۔ پڑھائی کی فکر تو موجود تھی اس لئے ابرار سے دوستی کر لی کہ اس کی محنت کا کچھ فائدہ مجھے بھی تو ہو۔ یہی دوستی رفتہ رفتہ پختہ تر ہوتی چلی گئی جب اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا شروع کیا۔ یہ بھی اس کا خلوص اور جذبہء ہمدردی ہی تھا کہ وہ امتحانات کے دنوں میں سارا سارا دن میرے ساتھ گزارتا اور تیاری میں میری بھرپور مدد کرتا۔ اتنی تو مجھے توقع بھی نہ تھی۔ بہرحال، اس کی مستقل مزاجی، فکرمندی، ہمت و حوصلہ، صبر اور لگن نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کے عزائم شروع ہی سے بہت اونچے تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ اسکول میں اساتذہ سے بار ہا زندگی کی حقیقت اور مقصد پر بحث کر چکا تھا۔ ہر بار کلاس کا وقت تھوڑا پڑ جاتا اور بات درمیان میں ہی رہ جاتی۔ مگر اس وقت اس کی آنکھوں میں موجود چمک مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔ مجھے کبھی کبھی حیرت ہونے لگتی۔ اس سے ذکر بھی کرتا مگر وہ صرف مسکرا کر خاموش رہ جاتا۔

زمانہ حاضر میں میرے سامنے ابرار ہی وہ واحد انسان تھا جسے اپنی منزل ستاروں سے آگے نظر آتی تھی۔ اسے دنیا کے نفع تقصان سے کوئی غرض نہیں تھی۔ لیکن اس کا خیال مجھ سے بہت مختلف تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اس کے جیسے بہت سے لوگ اس دنیا میں ابھی بھی موجود ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ انسان اللہ کا نائب ہے۔ اسے یہ زیبا نہیں کہ وہ "آفاق میں گم ہو جائے"۔ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ دیکھنا ایک دن میں اپنے اللہ کے لئے کچھ کر کے دکھاؤں گا۔ میں اس کی بات کو اس کی معصومیت اور نادانی سمجھ کے ہنسی میں اڑا دیتا۔

میری زندگی بھی ایک عام طالب علم کی زندگی سے کچھ مختلف نہیں تھی۔ جو سب کے مقاصد تھے، وہی میرے مقاصد تھے۔ جو سب کا معمول تھا وہی میرا بھی معمول تھا۔ زیادہ سوچنے کی کبھی زحمت نہیں کی۔ مجبوراً پڑھنا، وقت ملے تو "انجوائے" کرنا۔ ٹائم پاس کرنا۔ صبح و شام، یہی کام۔ مذہب، خدا، رسول اور قرآن وغیرہ سے عقیدت تو تھی، آخر مسلمان جو تھا۔ بس کبھی خصوصی دھیان نہ دیا۔ لیکن جب سے میری دوستی ابرار سے ہوئی تھی، اس وقت سے وہ وقتاً فوقتاً مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا۔ زیادہ بات نہ کرتا۔ بس اشاروں میں ہی سب کچھ کہہ جاتا۔ اور میں اس کی بات کو بھی کبھی سنجیدگی سے نہ لیتا۔ انسان کا معاملہ بھی کتنا عجیب ہے۔ اکثر اوقات وہ حق بات کو جانتے ہوئے بھی اس سے نظریں چراتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ اس کی وجہ شائد میری ہٹ دھرمی تھی یا کاہلی۔ یا شائد خود غرضی۔ کبھی غور نہیں کیا۔
وہ واقعی میرا سب سے اچھا دوست تھا۔ "تھا؟؟؟"، میں نے اپنے دل کو کوسا۔ دل میں پتا نہیں کیا کیا خدشات اس کے بارے میں جنم لے رہے تھے۔ کانوں میں فجر کی اذان کی آواز پڑی تو میں خیالات کی دلدل سے باہر آیا۔ میں ہسپتال میں ابرار کے پاس رات گزار کر گھر جا رہا تھا۔ موٹر سائیکل خود بخود مسجد کی طرف مڑنے لگی۔ میری آنکھوں سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا۔ معلوم نہیں اس کی وجہ سرد ہوا تھی یا کچھ اور۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں