منگل، 24 نومبر، 2015

غزل - انوکھا غم جو تڑپانے لگا ہے

غزل

انوکھا غم جو تڑپانے لگا ہے
مزا جینے کا اب آنے لگا ہے

خرد کے پیچ سلجهانے جو نکلا
دلوں کے تار الجھانے لگا ہے

جہاں تاریکیوں میں "جل" رہا ہے
یہ "ٹھنڈی آگ" بهڑکانے لگا ہے

کٹھن ہے راہ، پر تم کیسے سمجھو
یہ دیوانہ، کہاں جانے لگا ہے

تمنا ہے، لگن ہے، جستجو ہے
ارادہ، منزلیں پانے لگا ہے

کوئی آواز دل سے آ رہی ہے
"فہدؔ یکسر بدل جانے لگا ہے"

(فہدؔ بن خالد)

نوٹ: تیسرے شعر میں موجود "ٹھنڈی آگ" کی اصطلاح نعیم صدیقی صاحب کے افسانہ بعنوان "ٹھنڈی آگ" سے لی گئی ہے۔ مختصراً اس سے مراد وہ جذبہ ہے جو انسان کو مسلسل اپنے مقصد کے حصول کے لیے کچھ کرتے رہنے پر اکسائے اور اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑے نہ کہ وہ آگ جو کچھ دیر جلے اور پھر بجھ جائے۔