لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی جنھیں ازروےٗ قرآن اللہ کریم نے جملہ مسلمانوں عربی و عجمی، کالے و گورے ، حاکم و محکوم،چھوٹے بڑے،مرد و عورت کے لئے آفتاب ہدایت، سراپا راہنمائ اور ہمہ جہتی کامل نمونہ بنا کر بھیجا تھا،کیسے ممکن تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانی زندگی کے ایک جبلی و فطری تقاضے اور اہم پہلو ازدواج واہل و عیال کے سلسلے میں لوگوں کیلۓ مثالی نمونہ قائم نہ فرماتے۔(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عائلی زندگی ۔حافظ سعد اللہ،ص۱۳)
پس قرآن نے بجا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تمام انسانوں کیلۓ بہترین عملی نمونہ ہے۔چاہے وہ بھرےمجمع میں سیدۃ صفیہ ؓ کو راحلہ پر پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار کرانا تھا، یا پھر دوران اعتکاف مومنوں کی ماں عائشہؓ سے کنگھی کروا لینا،صفیہؓ کو مسجد کے دروازے تک چھوڑنے تک آنا ،بیویوں کو اپنی ذات پر فوقیت دینا،ان سے ہنسی مذاق کرنا،ان کی ناز برداریاں اٹھانا، یا خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی ان کی سہیلیوں کے گھر تحائف بجھوانا،ان کی حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلۓ دی جانے والی قربانیوں کا برملا اعتراف کرنا ،ہڈی کو اس طرف سے چوسنا جس طرف سے عائشہؓ نے چوسا ہو، یا پھر عائشہؓ کی گود میں ہی وصال کرنا ، جو سلسلہ ماں خدیجہؓ سے شروع ہوا اور ماں عائشہؓ کی گود میں وصال پر اختتام پذ یر ہوا اس میں ایسی کو ئی مثال نہیں ملتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیویوں سے کوئی ناروا سلوک روا رکھا، انہیں وہ درجہ دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے دنیا میں عورت یا اگر مو ضوع کی مناسبت سے کہیں تو بطور بیوی، نہیں دیا جاتا تھا۔