ہفتہ، 29 ستمبر، 2018

غزل - مجھے تنہا ہی رہنے دو

غزل

مجھے محفل سے کیا لینا، مجھے تنہا ہی رہنے دو
میں تنہا ہوں، میں تنہا تھا، مجھے تنہا ہی رہنے دو

میں کہتا تھا مرا رستہ بہت دشوار ہے لیکن
مجھے اب ڈر نہیں لگتا، مجھے تنہا ہی رہنے دو

نظر آنے لگی ہیں دور سے خورشید کی کرنیں
اٹھا آنکھوں سے اب پردہ، مجھے تنہا ہی رہنے دو

اگرچہ ہر طرف ہے سرد وحشت ناک تاریکی
مرے ہمرہ ید بیضا، مجھے تنہا ہی رہنے دو

فہدؔ، سو بار ٹھوکر کھا کے گرنا، پھر سے اٹھ جانا
جہاں سے پھر بھی یہ کہنا، مجھے تنہا ہی رہنے دو

(فہدؔ بن خالد)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں