پیر، 30 دسمبر، 2013

ترقی کا قرآنی معیار

اسلام بحیثیتِ دینِ کامل ہمیں زندگی کا مقصد اور اس مقصد کی تکمیل کا پورا طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دین کی اصطلاحات بھی سب سے جدا ہیں۔ لیکن آج کے دور میں امتِ مسلمہ خصوصاً برِصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت دین کے بنیادی فہم اور مختلف اصطلاحات کے اصل مفہوم سے نا آشنا نظر آتی ہے جس کی وجہ سے مسلم امت میں نہ صرف مادہ پرستی اور غیر مسلم اقوام کے طور طریقے اور رسم و رواج، بلکہ نظریات تک فروغ پا چکے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملکِ عزیز میں وہی انگریز کا عطا کردہ بے روح نظام تعلیم اپنی تمام خرابیوں سمیت رائج ہے۔ اس نے ہمارے ذہنوں میں ترقی، عزت و شرف اور کامیابی کے معیارات کو بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے،
فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور (آلِ عمران: 185)
ترجمہ: پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا بے شک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔
ہمیں بچپن ہی سے پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ملک کا ہر باشندہ "خوشحال" ہو اور اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ آسائشوں اور نفسانی خواہشات کو بھی بھرپور انداز سے پورا کر رہا ہو۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہو۔ اور اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر شخص "پڑھا لکھا" اور "تعلیم یافتہ" ہو۔ یہ ترقی کے بارے میں اس ملک کے عام فرد کا تصور بن چکا ہے۔ اس کے برعکس، العلیم، الخبیر اور الخالق تو متاعِ دنیا کو سراسر دھوکے کا سامان اور آخرت کو بہتر اور دائمی قرار دیتا ہے۔ پھر کیوں ہم قرآن کو چھوڑ کر مغربی افکار اپناتے ہوئے غلط سمت میں اپنی کوششیں اور صلاحیتیں صَرف اور اپنے آپ کو بحیثیتِ ملت مزید تنزلی کا شکار کر رہے ہیں؟
اسلام کا نام لیوا کہلانے اور اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے لئے ترقی وہی ہو جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ترقی قرار دیا اور تنزلی بھی وہی ہو جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تنزلی کہا۔ اور بلا شبہ نبی کریم ﷺ نے امت کو جو تصور دیا اس کے مطابق اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے اور ترقی کا راز تقوٰی میں پوشیدہ ہے گو اللہ کے دین پر عمل کر کے اور اسے زمین پر نافذ کر کے مادی ترقی بھی حاصل ہو گی لیکن آخر کیوں آپ ﷺ نے اپنے دور کو بہترین اور اس کے بعد کے ادوار کو کم تر قرار دیا حالانکہ سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے وہ دور "ترقی یافتہ" نہیں تھا؟
ارشادِ خداوندی ہے،
ومن یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزا عظیما (الاحزاب: 71)
ترجمہ: اور جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کی، تحقیق اس نے عظیم کامیابی حاصل کر لی۔
اللہ تعالٰی ہمارا خالق ہے اور جانتا ہے کہ ہماری بھلائی اور کامیابی کس چیز میں ہے۔ چنانچہ ایک اور مقام پر ارشاد ہے،
ترجمہ: اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو ہم یقینا ان پر آسمان و زمین سے برکت (کے دروازے) کھول دیتے۔ (الاعراف: 96)
درجِ بالا تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، ہماری دنیا و آخرت کی ترقی اللہ پر ایمان، اس کے احکام پر عمل اور اس کے نواہی سے اجتناب ہی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر ہم ان باتوں کا اہتمام کریں تو ہمیں دنیا کی ناقابلِ تسخیر قوت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ مومن کے ساتھ اللہ کی خاص مدد ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلائے اور معاملات کی حقیقت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

اھدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و لا الضالین
سبحانک اللھم و بحمدک نشھد ان لا الٰہ الا انت نستغفرک و نتوب الیک

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں