ہفتہ، 4 جنوری، 2014

فیس بُک دانشور

ہمارے دوست احباب میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کو فیس بُک کا "عارضہ" بڑی شدت سے لاحق ہے۔ کچھ احباب میں یہ مسئلہ ذرا کم ہے مگر اکثریت فیس بُک پر اپنے اکاؤنٹس (accounts) کے ذریعے دین کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ ویسے تو دین کے ان داعیوں میں مَیں بھی شامل ہوں لہٰذا بطورِ خیرخواہی چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر موضوع پسند آئے تو پڑھ لیں، نا بھی پسند آئے تو میرا دل رکھنے کیلئے پڑھ لیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ فیس بک کے ذریعے عوام الناس اور خصوصاً جو "تحریکی ناس" ہے، اس کو اپنی دانش بگھارنے کا سستا اور پائیدار پلیٹ فارم میسر آ گیا ہے۔ بات صرف اپنی دانش جھاڑنے تک ہی محدود رہے تو کوئی ایسا خاص مسئلہ نہیں، مگر جب یہ فیس بک دانش ور اپنے علم کی چھوٹی سی بالٹی سے سمندر کا کام لینا شروع کر دیتے ہیں اور دین کے معاملے میں بھی "دانش" گھساتے ہیں تو بے چارہ (یا شاید بے چاری) دانش بھی اپنے گناہوں پر چیخ اٹھتا ہے۔ بغیر کسی مستند علم اور ذریعہ علم کے صرف دو چار کلک اور چلّو بھر علم کے بھروسے پر دین کے نازک معاملات میں اپنی "قیمتی" آرا کو فیس بُک پر اَپ لوڈ (upload) کرنا کوئی مناسب طرزِ عمل نہیں ہے۔ پھر اس post پر، جس کی ٹانگیں پہلے ہی پولیو زدہ ہوتی ہیں، جب comments کے نشتر برستے ہیں تو دو چار سطحی قسم کی باتوں کے بعد مولانا uploader کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ مثال دینا مناسب نہیں کہ اس سے تذلیل کا پہلو بھی نکل آتا ہے۔
لہٰذا! فیس بک کا مناسب اور صحت مند استعمال ضرور کریں مگر اسے دین کے نازک معاملات پر گفتگو کا ذریعہ نہ بنائیں تاکہ دین کے حوالے سے لوگوں میں شبہات نہ پھیلیں۔ یہ کام الیکٹرانک میڈیا بخوبی انجام دے رہا ہے۔
ایک اور بات جس پر توجہ ہونی چاہیۓ کہ ہمارے بعض احباب بغیر کسی مستند حوالے کے، احادیث اور اقوال (اور بعض اوقات قرآنی آیات بھی جن پر سورت کا نام اور آیت کا نمبر لکھا ہونا چاہیۓ) سوشل میڈیا پر بھیجتے رہتے ہیں جو کسی بھی طرح درست نہیں، اسکا بھی خیال رکھیں۔ اپنے دینی مطالعہ اور فہم کو وسیع کریں۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

1 تبصرہ: