غزل
میں وہ "مجرم" ہوں، جو مجرم سے سزا چاہتا ہے
میں وہی کام کروں گا، جو خدا چاہتا ہے
بے نظر لوگ یہاں لائیں گے کیا تبدیلی
ظلم ہی ظلم کے ایواں کا پتا چاہتا ہے؟
یہ جہاں جہل کے سائے سے نمٹنے کیلئے
ٹمٹماتا ہوا چھوٹا سا دِیا چاہتا ہے
مجھ کو حیرت ہے مسلمان کی نادانی پر
قید خانے میں بھی جنت کا مزا چاہتا ہے
ایک لمحے کو تصور تو کرو اُس دن کا
کچھ تو سامان کرو، وقت ہُوا چاہتا ہے
کر دو اعلان زمانے میں، فہدؔ اپنوں سے
کچھ نہیں مانگتا، اک حرف دُعا چاہتا ہے
(فہدؔ بن خالد)
میں وہ "مجرم" ہوں، جو مجرم سے سزا چاہتا ہے
میں وہی کام کروں گا، جو خدا چاہتا ہے
بے نظر لوگ یہاں لائیں گے کیا تبدیلی
ظلم ہی ظلم کے ایواں کا پتا چاہتا ہے؟
یہ جہاں جہل کے سائے سے نمٹنے کیلئے
ٹمٹماتا ہوا چھوٹا سا دِیا چاہتا ہے
مجھ کو حیرت ہے مسلمان کی نادانی پر
قید خانے میں بھی جنت کا مزا چاہتا ہے
ایک لمحے کو تصور تو کرو اُس دن کا
کچھ تو سامان کرو، وقت ہُوا چاہتا ہے
کر دو اعلان زمانے میں، فہدؔ اپنوں سے
کچھ نہیں مانگتا، اک حرف دُعا چاہتا ہے
(فہدؔ بن خالد)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں