جمعہ، 5 ستمبر، 2014

امید - افسانہ

مایوسی بھی شیطان کے پھندوں میں سے ایک عظیم پھندہ، انتہائی خطرناک جال ہے۔ کبھی کبھی انسان بیٹھے بٹھائے اس جال میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کہ ساری زندگی برباد کر لیتا ہے۔۔۔جی ہاں! "ساری زندگی"!!! اگر اللہ کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو وہ(1) بھی راہ گُم کر بیٹھتا۔



وہ حسّاس طبیعت کا حامل تھا۔ خاموش طبع۔ پاکیزہ سیرت۔ شرمیلا۔ ہاں، ذہنی صلاحیتیں خدا نے بلا کی عطا کی تھیں۔ زیادہ وقت سوچنے میں گزارتا۔ یہ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کیسے ہے؟ ہر لمحہ متجسس۔ مطالعے کا شوقین۔ دینی گھرانے سے تعلق تھا۔ نماز روزہ کی تعلیم تو بچپن سے دی ہی گئی تھی۔ بچپن تو ہنسی خوشی، کھیل کود میں گزر گیا۔ سب کچھ بہترین۔ دل میں کوئی خلش تھی اور نہ ہی نفس و ضمیر میں کوئی چپقلش۔

ہاں جوانی کی دہلیز پہ قدم جو رکھا تو نئی دنیاؤں کے نئے طوفانوں سے سامنا ہوا۔ گیارہ ستمبر کے واقعہ کے دنیا پر اثرات اور صفوں کی علیحدگی۔ میڈیا کا کردار، ماحول کا اثر، انٹرنیٹ کا جہان اور پھر متجسس ذہن۔۔۔اُف! پھر کیا تھا؟ اللہ کے دیے اِس دماغ میں وہ سب کچھ بھر گیا۔۔۔جو کچھ بھرا جا سکتا تھا۔ شبہات کے زہر آلودہ نشتر دل میں کُھبنے، پیوست ہونے لگے اور ذہنی انتشار کا پارہ چڑھنے لگا۔ بے روح تعلیم نے جلتی پر مزید تیل چھڑک دیا۔ باہر کے میدانِ جنگ کا نقشہ سمجھنے کی کوشش کرتے ذہن کے اندر اس سے بڑے محاذ کھل گئے۔ رات کے اندھیروں میں خاموش مناظرے ہونے لگے۔دونوں طرف سے دلائل پیش کئے جانے لگے۔ وہ ذات جس پر کبھی "اندھا ایمان" تھا، اب اس سے ہدایت مانگتے بھی عجیب سا محسوس ہونے لگا۔ کتابِ لاریب فیہ میں شک پیدا ہوئے۔ جب ضمیر پر مسلسل حملے ہوں تو وہ مردہ ہونے سے پہلے اپنی پوری طاقت لگا کر انسان کو آخری دفعہ صحیح سوچنے پہ مجبور کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ نیت خالص تھی۔ حق کی تلاش تھی۔گمانوں کے لشکر ہی یقین کا ذریعہ بنے۔ بالآخر حق کے دلائل جیت کے مستحق ٹھرے۔ والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا(2)۔ اطمینانِ قلب نصیب ہوا۔ حق پر ثابت قدم رہنے کا عہد ہوا۔

ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا۔ مکمل طور پہ خوشی بھی نہیں منائی تھی کہ اس پر شیطان نے دوسرا بڑا حملہ کیا۔ یہ شہوات کا حملہ تھا۔ انسان جب اپنے آپ کو عقلیت پسند گرداننا شروع کر دیتا ہے اور ہر کام میں عقل استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں۔ صرف عقل ہی نہیں ہے جو انسان کو کنٹرول کرتی ہے۔ خواہشات اور جذبات اکثر عقل کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ کامیاب وہی ہو سکتا ہے جس میں بری خواہشات اور برے جذبات کے مقابلے میں اچھی خواہشات اور اچھے، دیر پا جذبات ہوں۔ وقتی لذّات کی جگہ دائمی لذّات کی خواہش نے لے لی ہو۔ بہرحال اس دفعہ وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس محسوس کر رہا تھا۔ شیطان اب بہلانے پھسلانے سے آگے بڑھ کر احکام جاری کرنے لگا تھا۔ اصلاح کی کوئی امید نظر آتی بھی تو دم توڑ جاتی۔ "کیا میں اپنے آپ کو گندگی کی اسی رو میں بہنے دوں؟ کیا میں ہار مان جاؤں؟ ہاں، میرے ہاتھ میں کیا ہے۔ سارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔ میں کیا کروں؟" اس کو کوئی حل نظر نہیں آتا تھا۔ یاس و ناامیدی کے بادل گہرے ہو چکے تھے۔ قریب تھا کہ معاشرے کا ناسور بنے حیوان نما انسانوں کے گروہ میں ایک اور ذی روح کا اضافہ ہو جائے؛ ایک اور انسان، انسانیت کے مرتبے سے گرے اور گرتا ہی چلا جائے کہ اسے اپنے رب کی صدا سنائی دی:
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ(3)
سارے در کھلتے محسوس ہوئے۔ آنکھوں سے لڑی جاری ہو گئی۔ امّید اور رجائیت سے قلب کو سکون عطا ہوا۔ دل کا بار ہلکا ہوا۔ آج اس کے اپنے رب سے معاملات درست ہونے لگے۔ ربّ کریم نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے مایوسی کے اندھے کنویں سے نجات دے دی۔ اب وہ بارگاہِ الٰہی میں گڑگڑا کر عرض کر رہا تھا: "اے اللہ! مجھے ساری زندگی اپنے دین پر ثابت قدم رکھنا اور میرا انجام نیکوکاروں کے ساتھ کرنا۔"

مایوسی بھی شیطان کے پھندوں میں سے ایک عظیم پھندہ، انتہائی خطرناک جال ہے۔ کبھی کبھی انسان بیٹھے بٹھائے اس جال میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کہ ساری زندگی برباد کر لیتا ہے۔۔۔ہاں ہاں! "ساری زندگی"!!! اگر اللہ کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو وہ(1) بھی راہ گُم کر بیٹھتا۔

-----------------
(1) آج کے دور میں یہ کہانی بہت سے نوجوانوں کی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(2) اور وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی ہم ضرور ہی انھیں اپنے راستے دکھادیں گے - العنکبوت،69
(3) (اے پیغمبر، ہماری طرف سے) کہہ دیں کہ اے ہمارے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ تو بخشنے والا (اور) ہمیشہ رحم کرنے والا ہے- الزمر،53

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں