غزل
نہ پوچھو حالِ دِل دِل سے، کہ دِل سچ سچ بَتا دے گا
دکھوں کا ذکر کر کے، آنسوؤں سے مسکرا دے گا
نہ تو عالِم، نہ میں عابد، تجھے مجھ پر فضیلت کیوں؟
تجھے منزل گوارا ہے، مجھے رستہ مزا دے گا
میں صبح و شام روتا ہوں، نہ سمجھو مجھ کو دیوانہ
یہ ٹھنڈی آگ ہے، اک دن لہو میرا بجھا دے گا
نہیں کوئی حقیقت، جاہ و حشمت کے نمونوں کی
فقیری کا یہ پتھر، پادشاہی کو ہِلا دے گا
ہماری جان جاتی ہے تو جائے، تو خفا کیوں ہے؟
ازل سے جو سلگتا ہو، اسے اب کیا وفا دے گا
مِرے مالک! تجھے معلوم ہے، تیرا ہی بندہ ہوں
تِرا دیدار، دل کی ہر تمنّا کو مٹا دے گا
فہدؔ مردِ قلندر ہے، جبھی خاموش رہتا ہے
اسے تنہا ہی رہنے دو! زمانہ سب سکھا دے گا
(فہدؔ بن خالد)