بدھ، 31 دسمبر، 2014

غزل - جسے دار و رسن کا خوف ہو، وہ بندگی کیوں ہو

غزل

جسے دار و رسن کا خوف ہو، وہ بندگی کیوں ہو
ذرا سی آزمائش پر، یہ اتنی بے خودی کیوں ہو

نہیں ہے قوتِ بازو، مگر حق بات کہتا ہوں
مرے حق بات کہنے پر بھی مجھ سے، بے رخی کیوں ہو

خلافِ فطرتِ اسلام، کیا تعمیرِ نو ہو گی
ترے تاریک چہرے سے، جہاں میں روشنی کیوں ہو

مرے خوابوں کی تعبیریں، کبھی تو دیکھ لے دنیا
مرے دامن میں صبح و شام، پھر شرمندگی کیوں ہو

مری آنکھوں کی نمناکی، بدل ڈالے زمانے کو
زمانے کو بدلنے کے لئے شمشیر ہی کیوں ہو

مثالِ بے خطا، موجود ہے جب سامنے تیرے
ہدایت کے لئے پھر غیر ہی کی پیروی کیوں ہو

اسی کا حکم چلتا ہے، عصا تو اک بہانہ ہے
نظر آئے کوئی جو بے عصا، بے چارگی کیوں ہو

اذانِ لا الہ کے واسطے، ہاتھوں پہ سر رکھ دو
جو ہو برسات تیروں کی، تو سینوں کی کمی کیوں ہو

فہدؔ سنتے ہو؟ کہتے ہیں، بڑی رنگین ہے دنیا
بھلا ان کو ترے رنج و الم سے، آگہی کیوں ہو

(فہدؔ بن خالد)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں