غزل
غم کے دریا جھیل جانا آگیا
غم کے دریا جھیل جانا آگیا
زخم کها کر مسکرانا آگیا
تجھ کو بھی جب دل دکھانا آگیا
ہم کو بھی سب بهول جانا آگیا
اپنے اندر کی سنی آواز جب
لب پہ الفت کا ترانہ آگیا
راہ تکتے شب سحر ہو جائے گی
آج لیکن دل لگانا آگیا
پڑھ کے یارو کھپ گئے تهے رات دن
پهر پڑھائی کا زمانہ آگیا
کھل گئی آخر کو اب اپنی کتاب
یاد سب قصہ پرانا آگیا
سب سے بڑھ کر یہ عنایت ہے فہدؔ
راہِ حق میں سر کٹانا آگیا
(فہدؔ بن خالد)