بدھ، 17 دسمبر، 2014

جنت کے پھول

پشاور کا الم ناک سانحہ۔۔۔۔اس پر جتنا افسوس کیا جائے، کم ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ دنیا میں ایک طرف وہ انسان ہیں جن سے بچوں کو روتے دیکھنا بھی برداشت نہیں کیا جاتا اور دوسری طرف وہ سفاک درندے جن کے لئے "درندے" کا لفظ بھی ناکافی ہے۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو غارت کرے اور شہدا کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے :-(  جوابھی ہسپتالوں میں ہیں ان کی حفاظت کرے۔ آمین!


یہ بات ذہن میں رہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ظلم و ستم کے اور درندگی کے یہ واقعات مسلسل امتِ مسلمہ کو پیش آتے رہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہ سب مظالم پاکستان کی سرحدوں کی حدود سے باہر رونما ہوتے رہے۔ ہم شاید اس بات پر اطمینان سے بیٹھے رہے کہ ہمارا گھر تو محفوظ ہے۔ کشمیر میں مظالم کی انتہا کی گئی۔ ہم خاموش رہے۔ فلسطین میں سکولوں میں پڑھتے ہمارے بچوں پر بم برسائے گئے۔ ہم اظہارِ افسوس کر کے بھول گئے۔ عراق اور افغانستان، شام اور برما میں یہ ننھے پھول مسلے گئے۔ ہم بُت بنے بیٹھے رہے۔ پھر ایک وقت آ ہی گیا کہ ہمیں اپنے گھروں سے لاشے اٹھانا پڑے۔ ہم اس کے باوجود بے حس و حرکت، روز مرہ کی زندگی سے باہر نہ نکل سکے۔ اب ہم کس کی مذمت کریں؟ ان دہشت گردوں کی، جنھیں ہماری مذمتوں کی تو کیا جانوں کی بھی پروا نہیں؟ یا اپنی مذمت کریں۔ پروا تو ہمیں بھی نہیں ہے۔

ہم تو یہ نشانیاں دیکھنے کے باوجود ناچ گانے میں اور زندگی 'انجوائے' کرنے میں مصروف رہے۔ ہمارے ٹی۔وی۔ چینل ببانگ دہل اس کائنات کے رب سے بغاوت کا اعلان کرتے رہے۔ ہمارے بینک اس کے خلاف طبلِ جنگ بجاتے رہے۔ ہمارے 'دانشور' اُس کے نیک بندوں اور ان کی باتوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ ہم نے تو کتاب اللہ کو بھی نہ بخشا۔ کاش! کہ ہم اس قدر بے حس نہ ہوتے۔ کاش ہمیں احساسِ زیاں ہو جائے۔ کاش ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ بندے اور رب کی جنگ میں رب کو ہرایا نہیں جا سکتا۔ خدایا! ہمیں معاف فرما۔ ہم اپنا بہت نقصان کر چکے۔ ہم نے زلزلوں، سیلاب اور خون ریزی کے عذاب کا بھی کوئی اثر نہ لیا۔ ہمیں معاف کر دے۔ ہم نے جہاد چھوڑ دیا تو ہمارے دشمن نے اس مقدس عبادت کے نام پر فساد شروع کر دیا۔ ہمیں معاف کر دے۔
خدا  نے  آج تک  اس قوم کی   حالت  نہیں  بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
کیا اب بھی ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہ آئے گی؟ جنت کے پھول تو جنت میں پہنچ چکے۔ ہمارے لئے ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں