بدھ، 31 دسمبر، 2014

غزل - جسے دار و رسن کا خوف ہو، وہ بندگی کیوں ہو

غزل

جسے دار و رسن کا خوف ہو، وہ بندگی کیوں ہو
ذرا سی آزمائش پر، یہ اتنی بے خودی کیوں ہو

نہیں ہے قوتِ بازو، مگر حق بات کہتا ہوں
مرے حق بات کہنے پر بھی مجھ سے، بے رخی کیوں ہو

خلافِ فطرتِ اسلام، کیا تعمیرِ نو ہو گی
ترے تاریک چہرے سے، جہاں میں روشنی کیوں ہو

مرے خوابوں کی تعبیریں، کبھی تو دیکھ لے دنیا
مرے دامن میں صبح و شام، پھر شرمندگی کیوں ہو

مری آنکھوں کی نمناکی، بدل ڈالے زمانے کو
زمانے کو بدلنے کے لئے شمشیر ہی کیوں ہو

مثالِ بے خطا، موجود ہے جب سامنے تیرے
ہدایت کے لئے پھر غیر ہی کی پیروی کیوں ہو

اسی کا حکم چلتا ہے، عصا تو اک بہانہ ہے
نظر آئے کوئی جو بے عصا، بے چارگی کیوں ہو

اذانِ لا الہ کے واسطے، ہاتھوں پہ سر رکھ دو
جو ہو برسات تیروں کی، تو سینوں کی کمی کیوں ہو

فہدؔ سنتے ہو؟ کہتے ہیں، بڑی رنگین ہے دنیا
بھلا ان کو ترے رنج و الم سے، آگہی کیوں ہو

(فہدؔ بن خالد)

بدھ، 17 دسمبر، 2014

جنت کے پھول

پشاور کا الم ناک سانحہ۔۔۔۔اس پر جتنا افسوس کیا جائے، کم ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ دنیا میں ایک طرف وہ انسان ہیں جن سے بچوں کو روتے دیکھنا بھی برداشت نہیں کیا جاتا اور دوسری طرف وہ سفاک درندے جن کے لئے "درندے" کا لفظ بھی ناکافی ہے۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو غارت کرے اور شہدا کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے :-(  جوابھی ہسپتالوں میں ہیں ان کی حفاظت کرے۔ آمین!

غزل - میں وہ مجرم ہوں جو مجرم سے سزا چاہتا ہے

غزل

میں وہ "مجرم" ہوں، جو مجرم سے سزا چاہتا ہے
میں وہی کام کروں گا، جو خدا چاہتا ہے

بے نظر لوگ یہاں لائیں گے کیا تبدیلی
ظلم ہی ظلم کے ایواں کا پتا چاہتا ہے؟

یہ جہاں جہل کے سائے سے نمٹنے کیلئے
ٹمٹماتا ہوا چھوٹا سا دِیا چاہتا ہے

مجھ کو حیرت ہے مسلمان کی نادانی پر
قید خانے میں بھی جنت کا مزا چاہتا ہے

ایک لمحے کو تصور تو کرو اُس دن کا
کچھ تو سامان کرو، وقت ہُوا چاہتا ہے

کر دو اعلان زمانے میں، فہدؔ اپنوں سے
کچھ نہیں مانگتا، اک حرف دُعا چاہتا ہے

(فہدؔ بن خالد)

جمعرات، 11 دسمبر، 2014

غزل - کچھ غم کی نہیں بات یہ صدمات کا ہونا

غزل

کچھ غم کی نہیں بات یہ صدمات کا ہونا
ہے دن کی پیامی بھی یہی رات کا ہونا

دو چار قدم رکھ تو سہی جانب منزل
اُس ذات کے پهر دیکھ کمالات کا ہونا

پهر چشم فلک دیکھ کے حیران ہوئی ہے
سر خاک پہ رکھتے ہی کرامات کا ہونا

سو بار نظر ڈال تُو ہر ایک عمل پر
اک روز یقینی ہے مکافات کا ہونا

اس اشک فشانی سے فہدؔ کچھ نہیں حاصل
دنیا کے لئے کافی ہے برسات کا ہونا

 (فہدؔ بن خالد)

پیر، 17 نومبر، 2014

غزل - حقیقت سے میں اپنی آشنا ہوں

غزل

حقیقت سے میں اپنی آشنا ہوں
کسی کو کیا خبر، میں کیا بلا ہوں

کبھی میں پهول بن کر جهوم اٹهوں
کبهی بن کر ستارہ، ٹوٹتا ہوں

کبهی میں سوچتا ہوں، کچھ نہ سوچوں
مگر پهر سوچتا ہوں، "سوچتا ہوں"

رقیبوں کی کہاں ہمت، کہ روکیں
ذرا سی دیر، سستانے رکا ہوں

مرا رستہ تو کانٹوں سے بهرا ہے
کوئی آئے نہ آئے، میں چلا ہوں

فہدؔ آواز بے شک کانپتی ہے
قلم کی جنبشوں کو جانتا ہوں

(فہد بن خالد)

جمعہ، 5 ستمبر، 2014

امید - افسانہ

مایوسی بھی شیطان کے پھندوں میں سے ایک عظیم پھندہ، انتہائی خطرناک جال ہے۔ کبھی کبھی انسان بیٹھے بٹھائے اس جال میں ایسا گرفتار ہوتا ہے کہ ساری زندگی برباد کر لیتا ہے۔۔۔جی ہاں! "ساری زندگی"!!! اگر اللہ کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی تو وہ(1) بھی راہ گُم کر بیٹھتا۔

ہفتہ، 4 جنوری، 2014

فیس بُک دانشور

ہمارے دوست احباب میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کو فیس بُک کا "عارضہ" بڑی شدت سے لاحق ہے۔ کچھ احباب میں یہ مسئلہ ذرا کم ہے مگر اکثریت فیس بُک پر اپنے اکاؤنٹس (accounts) کے ذریعے دین کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ ویسے تو دین کے ان داعیوں میں مَیں بھی شامل ہوں لہٰذا بطورِ خیرخواہی چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر موضوع پسند آئے تو پڑھ لیں، نا بھی پسند آئے تو میرا دل رکھنے کیلئے پڑھ لیں۔